پینتیس سالوں سے سماجی اور فلاحی خدمات سرانجام دینے والے پاکستان کے عالمی ادارے ہینڈز نے جشن آزادی کے سلسلے میں لاہور میں ایک پروقار تریب کا اہتمام کیا، جس میں ملک کے کونے کونے سے سماجی خدمات انجام دینے والے مرد و حضرات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
ایکسپو سینٹر میں ہوئی تقریب میں ھینڈز پاکستان و انٹرنیشنل کے بانی اور چیئرمیں پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفار بلو، وزیر سماجی بہبود پنجاب ذکعیہ شاہنواز، انصاف یوتھ ونگ کے چیئرمن زبیر احمد خان اور دیگر نے شرکت کی۔ جبکہ ہینڈز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر تنویر نے ایک کمرے سے شروع ہونے والے ادارے کے پییتیس سالہ سفر پر تفصیلی بریفنگ دی۔
تقربب سے خطاب کرتے ہوئے ھینڈز پاکستان و انٹرنیشنل کے بانی اور چیئرمیں پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفار بلو نے کہا کہ ھینڈز ایک غیر منافع بخش اور غیر سرکاری رجسٹرڈ تنظیم ہے ، جو ۱۹۷۹سے صحتمند،تعلیم یافتہ، برابری،خوشحال پاکستان کے واضح تصور کے ساتھ دیھی آبادی کے حالات زندگی کو بہتر بنانے اور آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے کے ٹھوس پروگرام کے ذریعےمقامی آبادی کو بااختیار بنانے کے لئے کوشاں ھےھینڈزصحت،تعلیم،غربت مٹاوّ اور سماجی تحرک کے شعبوں میں مقامی تنظیموں،سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے اشتراک سے ملک میں ۳۵اضلاع کے ،۲۰۲۷۴دیہاتوں کی ۱۶۰۲ملین سے زائد آبادی کو فائدہ پہنچا رہی ہے ھینڈز نے اپنے پروگراموں کو موّثر اور زیادہ فعال بنانے کے لئے جینڈر اور ڈولپمینٹ کو پائیداریت کے پروگراموں سے مربوط کیا ہے۔
معاشرے کی سیاسی، سماجی ، لسانی، مذہبی، معاشی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم سماجی ڈھانچے کی شکست و ریخت کی ذمہ دار ہےترقی اور خوشحالی کی بنیاد کسی ملک کے لوگوں کی بہتر حالت زار ہے۔ ترقی یافتہ اور خوشحال ملک وہ ہے جہاں لوگوں کی صحت کا معیار بلند ہے جہاں عوام کو تعلیم اور بہتر خوراک مہیا ہے، جہاں مزدوروں کو ان کی محنت کا حق ملتاہے جہاں معذوروں اور کمزوروں کی دیکھ بھال ہوتی ہے اور جہاں خواتین بااختیار ہوتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قدرتی آفات ہوں یا پہر خود انسان کی پیدا کردہ تباہکاریاں، بہت زیادہ سنگین مسائل ہیں اور معاشرے کے لئے ایک بہت بڑا چیلینج بہی۔ کہا جاتا ہے کہ قدرتی آفات کے بعد جتنے وسائل اور خاص طور پر جو رقم مختص کی جاتی ہے ، وہ کہیں زیادہ ہے ان وسائل اور رقم کے جو اس سے نمٹنے کے لئے درکار ہوتی ہے ، یعنی اگر پہلے سے ان قدرتی آفات اور تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے مناسب منصوبہ بندی اور اقدامات کرلئے جائیں تو نسبتاّ چوتہائی سے بہی کم وسائل اور رقم درکار ہو گی
ترقی یافتہ ممالک نے اس بات کی اہمیت کو سمجہتے ہوئے اپنی حکمت عملی برائے ڈزاسٹر مینیجمینٹ کو اس ہی اصول پر وضع کر رکہی ہے یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے لئے کسی بہی قسم کی آنے والے قدرتی آفات سے نمٹنا فوری طور پر کہیں زیادہ آسان ہو جاتا ہے
بانسبت ترقی پذیر ممالک کے اور انسانی جانوں کا زیادہ نقصان بہی نہیں ہوتا۔ اب ترقی پذیر ممالک میں بہی ان باتوں کو سمجہا جا رہا ہے اور کئی ملکوں نے تو اس پر کام بہی شروع کردیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان بہی ڈزاسٹر مینیجمینٹ کی اہمیت کو سمجہے کیونکہ ماہرین کے رائے کے مطابق پاکستان کو آئندہ کئی سالوں تک قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑیگا ،چنانچہ حکومت اور پالیسی بنانے والوں کو نئے آنے والے سال کے ترقیاتی فنڈز میں چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے مناسب فنڈ مختص کرنےچاہئے اور اس کے لئے تیکنیکی رہنمائی بہی لینی چاہئےاور اس کو حکومت کی ترجیحات میں شامل کرنا چاھیے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر سماجی بہبود پنجاب زکعیہ شاہنواز نے کہا کہ فلاحی کاموں اور انسانیت کی خدمت کیلئے مالی وسائل سے زیادہ جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدمت کا جذبہ دل میں ہو تو وسائل خود بخود میسر ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے ہینڈز کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ حکومت تنہا کچھ نہیں کر سکتی، لوگوں کے مسائل سے نکلنے کیلئے ہینڈز کی طرح دیگر اداروں کو بھی آگے آنا چاہئے۔
یوم آزادي کے مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ھینڈز کے چیف ایگزیکیوٹوڈاکٹر شیخ تنویر احمد نے کہاکہپاکستان میں تعلیم امیر آدمی کا سٹیٹس بنتا جا رہا ہے،انصاف کی طرح تعلیم پربھی ہر کسی کا حق ہونا چاہیے،ملک میں جس طرح دفاع کے نام پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاتا اسی طرح تعلیم کے شعبے میں ترقی کیلئے بھی کوئی کمپرومائز نہیں ہوناچاہیے۔تعلیم برائے نوکری کا تصور ختم ہونا چاہیے۔میٹرک کے سالانہ نتائج 2015ء کا جائزہ لیں توپتا چلتا ہے کہ 50فیصد آبادی ابھی بھی میٹرک تک تعلیم حاصل نہیں کر پائی
پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی تعدادسرکاری یونیورسٹیوں سے زیادہ ہوچکی ہے یا مستقبل قریب میں ہو جائیگی جو معیار تعلیم کی بہتری کیلئے کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔فیسوں کا موازنہ کریں توسرکاری یونیورسٹی کی ایک سال کی فیس پرائیویٹ یونیورسٹی کے ایک سمسٹر کی فیس سے بھی کم ہے۔
کچھ شعبے ایسے ہوتے ہیں جس میں لاگت یا پیسے کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہیے ،اس میں دو شعبے تعلیم اور صحت نمایا ں ہیں۔بدقسمتی سے دونوں شعبوں کے اندرلاگت یا پیسے عنصرکے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر نے شامل ہوکر دونوں شعبوں کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔جس سے اب معیاری تعلیم کی جگہ پیسے نے لے لی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ
خوشحال ملکوں میں رات کے وقت بھی تعلیمی اداے کھلے رہتے ہیں جبکہ ہمیں رات کے وقت اپنے تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو پرانا کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتالہذا تعلیم کے میدان میں ترقی کرنے کیلئے ہمیں رات کے وقت بھی سب کیمپسسز کھولنے چاہئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کا قدرتی آفات اور دیگر ماحولیاتی خطرات میں گھرے ہونے کے پیش نظر ھینڈز نے اپنے کمیونٹی ڈیولپمینٹ کے کاموں کے ساتھ ساتھ ڈزاسٹر مینیجمینٹ کی خصوصی حکمت عملی بہی واضع کر رکہی ہے اور اس حکمت عملی کے تحت ھینڈز نے کمیونٹی بیسڈ ڈساسٹر مینیجمینٹ سینٹرز تعمیر کیے ہیں، یہ سینٹرز تباہ حال اور متاثرہ گاوّں اور دیہاتوں کے لوگوں کو انکے گھروں کی تعمیر میں مدد کیلئے تربیت فراہم کر رہے ہیں۔
تقریب میں بہتر کارکردگی کی بنیاد پر ہینڈز کے کارکنوں میں ایوارڈز تقسیم کئے گئے۔ تقریب میں نعت خوانی اور گانوں کے مقابلے بھی ہوئے۔ تقریب میں ملک بھر سے آئے کارکن ملی نغموں پر قومی پرچم اٹھائے جھومتے رہے۔۔